فیکٹ چیک: بریلی اسکول میں مسلمانوں کا قومی ترانے کی مخالفت کا دعویٰ فرضی نکلا۔ جانئے پوری حقیقت
بریلی میں بلومنگ ڈیلس اسکول کے قریب زمین فروخت کرنے سے انکار پر پرنسپل نے اراضی کا مالک مصطفیٰ اور شکور کے خلاف قومی ترانے کی مخالفت کا الزام لگاکر تھانے میں کیس درج کردیا

Claim :
بریلی میں مقامی مسلمانوں نے اسکول میں قومی ترانہ گانے پر اعتراض جتایاFact :
بریلی پولیس کی جانچ سے واضح ہوا کہ پرنسپل نے اراضی کے تنازع کو بڑھاچڑھاکر قومی ترانے کی مخالفت کا رنگ دینے کی کوشش کی
اترپردیش کے بریلی ضلع کے دونکہ گاوں میں پرائمری اسکول اور جونیئر ہائی اسکول سے ملحقہ زمین پر کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر قبضہ جما لیا ہے۔ اور انکی جانب سے اسکول کے قریب گندگی کے ڈھیر لگنے کی وجہ سے طلبا کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ مقامی افراد نے ایس ڈی ایم اور بی ایس اے بریلی کو ایک چٹھی لکھ کر غیر قانونی قبضہ برخواست کرنے کی درخواست کی ہے۔
اپنی عرضی میں دیہاتیوں نے بتایا کہ اس جگہ سے متعلق جونیئر ہائی اسکول اور پرائمری اسکول دونکہ کی ملکیت کا مقدمہ الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں نے اسکول کی جگہ پر نہ صرف قبضہ کر لیا بلکہ اسکول کے قریب گندگی کے ڈھیر لگا دئے ہیں۔ عرضی گذاروں بچوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکول کی جگہ سے قبضہ ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس بیچ، اسی بریلی ضلع سے ایک ویڈیو بڑے پیمانے پر وائرل کرتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہیکہ مقامی مسلمانوں نے اسکول کی اسمبلی میں قومی ترانہ گائے جانے پر اعتراض جتایا ہے۔
ہندی میں دعوے کا متن:
अब राष्ट्रगीत कै लिए मुस्लिमो से प्रमोशन लैनी होगी?
बरेली के स्कूल में राष्ट्रगान गाना अब 'शांति भंग' करने वाला शोर बन गया है!
मुसलमान कह रहे हैं — "दुआ चलेगी, लेकिन जन गण मन नहीं!"
बच्चे डराए जा रहे हैं, टीचर्स धमकाए जा रहे हैं।
ترجمہ: "اب قومی ترانہ کے لئے مسلمانوں سے اجازت لینی ہوگی؟ بریلی کے ایک اسکول میں قومی ترانہ گانا اب "امن بگاڑنے والا شور" بن گیا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے "صرف دعا کی جائیگی، لیکن جن گن من نہیں چلے گا!" بچوں کو ڈرایا اورر اساتذہ کو دھمکایا جا رہا ہے۔"
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ وائرل پوسٹ میں 'قومی ترانہ' سے متعلق کیا گیا دعویٰ فرضی ہے۔ دراصل یہ معاملہ اسکول سے جڑی اراضی کی خریداری کا ہے اور اسکول کی پرنسپل نے حکام نے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
جب ہم نے موزوں کیورڈس کی مدد سے اس معاملے کی جانچ پڑتال شروع کی تو ہمیں 30 اپریل 2025 کا 'دینک بھاسکر' کا آرٹیکل ملا۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہیکہ ایک نجی اسکول کی منتظم شبینہ زاہد نے قلعہ پولیس تھانے کی حدود میں کلکٹر اور ایس ایس پی کے دفتر میں ایک ایک درخواست دیتے ہوئے شکایت کی کہ مسلم آبادی والے علاقہ میں ان کا 'بلومنگ ڈیلس اسکول ہے۔ اور روزانہ صبح اسمبلی میں بچوں کی طرف سے قومی ترانہ گائے جانے پر مقامی مسلمانوں نے اعتراض جتایا اور کہا کہ اگر وہ قومی ترانہ گانا بند نہیں کریں گے تو ان کا اسکول بند کردیا جائیگا۔ شبینہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو یہ بھی بتایا کہ مقامی مسلمانوں نے کہا کہ اگر اسمبلی میں بچے علامہ اقبال کا لکھا ترانہ 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔' پڑھتے ہیں تو انہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔"
عرضی گذار نے یہ بھی بتایا کہ ان کا اسکول پانچویں جماعت تک ہے اور محکمہ تعلیم نے 2016 میں انکے اسکول کو مسلمہ قراردیا تھا۔
جب ہم نے اپنی تحقیق جاری رکھی تو ہمیں 'امرت وچار' نامی ہندی نیوز ویب سائیٹ پر ایک مضمون ملا جس میں بتایا گیا ہیکہ اسکول کی پرنسپل نے اراضی کے تنازع کو بڑھا چڑھاکر اسے قومی ترانہ کا تنازع بتاکر حکام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ "قلعہ تھانہ علاقے کی ایک اسکول چلانے والی خاتون نے ایک نوجوان پر قومی ترانے کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ایس پی سٹی کی جانچ میں یہ الزام بے بنیاد ثابت ہوا اور پتہ چلا پرنسپل اور نوجوان کے بیچ زمین کا تنازع چل رہا تھا۔ اور شبینہ نے کچھ لوگوں کے اکسانے پر نوجوان کو پھنسانے کے لیے شکایت درج کروائی تھی۔
مزید سرچ کرنے پر ہمیں بریلی پولیس کی ٹوئیٹ ملی جس میں بتایا گیا ہیکہ "تھانہ قلعہ علاقے میں اسکول چلانے والی خاتون کی جانب سے زمین کو لیکر آپسی تنازعے میں قومی ترانے کی مخالفت کا الزام لگانے کے بعد پولیس کی جانب سے کی جا رہی کارروائی کے سلسلے میں پولیس سپرنٹنڈنٹ شہر (ایس پی سٹی) مانوش پاریک نے بتایا کہ " جانچ میں پتہ چلا کہ شبینہ زاہد نے اسکول سے ملحہ اراضی کی فروخت کے انکار پر زمین کے مالک مسطفیٰ میاں اورر شکور پر اسکول کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان دونوں نے اسکول کے بچوں کی جانب سے قومی ترانہ گائے جانے پر اعتراض جتایا۔ جبکہ جانچ کارروائی سے پتہ چلا کہ شبینہ نے اراضی کے معاملے کو بڑھاچڑھاکر پیش کیا اور چند لوگوں نے انہیں اراضی کے معاملے کو قومی ترانے سے جوڑ کر پیش کرنے کیلئے اکسایا اور پولیس ان لوگوں کی شناخت میں جٹی ہے۔"