فیکٹ چیک: کیا صحافی راج دیپ سردیسائی کے والدین نے مسلمانوں کے خوف سے ان کا ختنہ کروایا تھا؟ جانئے پوری حقیقت
سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صحافی راج دیپ سردیسائی کے والدین نے مسلمانوں کے خوف سے بچپن میں ان کا ختنہ کروایا تھا۔ بعد میں سردیسائی نے واضح کردیا کہ جنسی صفائی کے خیال سے انکے والدین نے ایسا کروایا تھا۔

Claim :
راج دیپ سردیسائی کے والدین نے مسلمانوں کے خوف سے ان کا ختنہ کروایا تھاFact :
سردیسائی کے والدین نے جنسی صفائی کے پیش نظر بچپن میں ان کا ختنہ کروایا تھا
چند ہفتے قبل، دہلی ہائی کورٹ نے معروف صحافی راج دیپ سردیسائی کے خلاف ہتک عزت معاملے میں حقائق چھپانے کے معاملے میں بی جے پی لیڈر شازیہ علمی پر 25 ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کیا۔
جسٹس منمیت پریتم سنگھ اروڑا نے کہا کہ علمی نے انڈیا ٹوڈے کے صحافی سردیسائی کی جانب سے انکی گفتگو کا ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کئے جانے کے بعد اپنی دو سوشل میڈیا پوسٹس چھپا دی تھیں جو ان کی سردیسائی کے ساتھ گفتگو کا حصہ تھیں۔
اس درمیان، سوشل میڈیا بالخصوص ایکس پلیٹ فارم پر سردیسائی کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہیکہ معروف صحافی کے والدین نے مسلمانوں سے خطرے کی وجہ سے بچپن میں ہی ان کا ختنہ کروادیا تھا۔
ایکس صارف 'مسٹر سنہا' نے سردیسائی کی کتاب کے تراشے کا اسکرین شاٹ شئیر کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا: "راجدیپ سردیسائی نے اپنی سوانح عمری میں ذکر کیا ہے کہ ان کی بچپن میں ختنہ کی گئی تھی۔
ان کے والدین نے مسلمانوں کے خوف سے یہ اقدام کیا تھا، کیونکہ ان دنوں فسادات عام تھے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمان لوگوں کی پینٹ چیک کیا کرتے تھے۔
آج وہی راجدیپ انہی اسلام پسندوں کا دفاع کرتے ہیں، اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں فسادات تو صرف بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی شروع ہوئے، اور ہندوتوا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔"
انگریزی میں دعوے کا متن:
Rajdeep Sardesai, in his biography, mentioned that he was circumcised (Khatna) during his childhood.
His parents did it out of fear of Muslims, as riots were common in those days and Muslims would check people's pants.
Today, Rajdeep defends the same Islamists, pretends that riots began only after the BJP came to power, and abuses Hindutva for it.
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کے دعوے کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے جانچ پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
سب سے پہلے ہم نے راج دیپ سردیسائی سے متعلق کئے گَئے دعوے سے متعلق گوگل سرچ کیا تو ہمیں نومبر 2014 کا 'بزنس اسٹانڈرڈ' کا مضمون ملا جس میں معروف صحافی کے ساتھ غیر رسمی بات چیت شامل کی گئی ہے۔
اس مضمون میں سردیسائی کی کتاب " 2014, The Election That Changed India " سے متعلق بھی کچھ باتیں تحریر میں شامل کی گئی ہیں۔ اس مضمون میں سردیسائی نے 2002 کے گجرات فسادات کے بعد کے حالات کا ایک پریشان کن واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، " جب گجرات میں حالات معمول پر آرہے تھے، ایک رات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا انٹرویو کرکے لوٹ رہا تھا، مودی کی رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک ہجوم نے انکی کار روک دی اور انہیں اپنی ٹراوزر اتارنے کیلئے کہا کیوں کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا ان میں کوئی مسلمان شامل ہے۔" سردیسائی آگے لکھتے ہیں کہ انکے والدین سے جنسی صفائی کو مد نظر رکھتے ہوئے بچپن میں ان کا ختنہ کروایا تھا اور انہیں ہجوم کو سمجھانا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ پھر انہوں نے انہیں اپنا پریس کا شناختی کارڈ اور مودی کا انٹرویو دکھایا تو انہیں آگے جانے دیا گیا۔
پھر ہم نے مزید سرچ کیا تو 'نیوز لانڈری' ویب سائیٹ پر ہمیں سردیسائی کی کتاب کے چند اقتباسات ملے جن معروف صحافی یوں رقمطراز ہیں۔ " ہم انٹرویو سے باہر نکلے اور ہمیں تقریباً یقین ہوگیا تھا کہ وزیر اعلیٰ تشدد سلسلے کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ لیکن ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہمارا شبہ سچ ثابت ہوا۔ گاندھی نگر میں [وزیر اعلیٰ] کی رہائش سے چند کلومیٹر دور احمد آباد جانے والی مرکزی شاہراہ پر ہمیں ایک سڑک پر رکاوٹ ملی جہاں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے حامی ڈنڈے، تلواریں اور کلہاڑیاں لیے پہرہ دے رہے تھے۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ جب ہمارے ڈرائیور نے راستہ بدلنے کی کوشش کی تو کسی نے گاڑی پر کلہاڑی پھینک کر حملہ کیا ۔ گاڑی رک گئی اور ہمیں مجبورا باہر نکلنا پڑا۔
"تم ہندو ہو یا مسلمان؟" ایک بھگوا پٹی پہنے نوجوان نے چِلّاتے ہوئے پوچھا۔
آپ کی اطلاع کیلئے بتادوں کہ ہم سب ہندو تھے، سوائے ہمارے ڈرائیور سراج کے، جوکہ مسلمان تھے۔ ہمارے سروں پر تلواریں لہرائی جا رہی تھیں، اور وہ ہم سے اپنی پتلونیں اتارنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم میں سے کسی نے ختنہ تو نہیں کروائی ہے۔
میرے عقلیت پسند والدین نے جنسی صفائی کے خیال سے پیدائش کے وقت ہی میری ختنہ کروا دی تھی۔"
چونکہ مسٹر سنہا کی ٹوئیٹ اتنی وائرل ہوچکی تھی کہ راج دیپ سردیسائی نے اس معاملے پر ردعمل دینا ضرور سمجھا اور اس ٹوئیٹ کے جواب میں کہا کہ" عموما، میں آئی ٹی سیل آرمی کے عام صارفین کی تنقیدوں کا جواب نہیں دیتا۔ چونکہ اس معاملے میں میرے والدین کو درمیان میں لایا گیا ہے اسلئے جواب دینا پڑرہا ہے۔ کوئی کیسے اتنا زہر اگل سکتا ہے۔ یہ میرے والدین ہی کی پرورش ہیکہ آج میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں ایک بھارتی ہوں۔ میرے والدین نے مجھے کسی بھی ہم وطن سے کسی بھی طرح سے امتیازی سلوک کرنا نہیں سکھایا۔ میرے والد نے ٹیم انڈیا کی طرف سے کرکٹ کھیلا، ایک ایسا کھیل جس میں صلاحیت دیکھی جاتی ہے، اور جہاں ہر طبقے اور برادری کی نمائندگی ہوتی ہے۔ میری والدہ ایک ماہرِ تعلیم ہیں، جو 80 سال کی عمر میں بھی نوجوانوں کو با شعور اور ذمہ دار شہری بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔میں نے کوئی سوانح عمری نہیں لکھی، لیکن نیچے دیا گیا اقتباس میری 2014 کی کتاب سے ہے، جو ایک سچی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بجرنگ دل کے ایک ہجوم نے ہمیں اپنی پتلونیں اتارنے پر مجبور کیا تھا۔
آج اس واقعے کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کے خلاف خوف اور نفرت پھیلانا، اور ایسی بکواس لکھنا، یہ بتلاتا ہے کہ سماج میں کس طرح فرقہ وارانہ زہر پھیلایا جاتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ ایکس (X) ایسے اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کرے گا۔"
میڈیا رپورٹس اور جانچ پڑتال سے یہ واضح ہوگیا کہ راج دیپ سردیسائی کے اپنی کتاب میں جنسی صفائی کے حوالے سے ختنہ کو لیکر کئے گئے ریمارک کو کس طرح فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلایا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔
2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت بھر میں 14 فیصد غیر مسلموں نے رضاکارانہ طور پر ختنہ کروایا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ ختنہ کروانے کی سب سے بڑی وجہ "بہتر جنسی صفائی" پائی گئی اور بہت کم لوگوں نے "ایچ آئی وی کے خطرے میں کمی" کے خیال ایسا کروایا۔